اخبارات
اخبارات
📰
*اخبار* کاغذ کا بنا ہوتا ہے، باقی دنیا میں اسے پڑھا جاتا ہے ہمارے ہاں دیکھا جاتا ہے یا پھر پھاڑ دیا جاتا ہے۔ اخبار میں اشتہارات کے علاوہ یونہی معلومات عامہ کے لئے تھوڑی بہت خبریں بھی ڈال دی جاتی ہیں، ان خبروں میں سب سے زیادہ ’’ن نے ش کے ساتھ کھیتوں میں ع غ کردیا‘‘ والی خبریں پڑھی جاتی ہیں، اخبارات میں کالم چھپتے ہیں کالموں والا صفحہ سب سے اہم سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ پڑھنا نہیں پڑتا، وقت بچ جاتا ہے، عورت کی طرح اخبار کی بھی سب سے اہم خبر سُرخی کہلاتی ہے لیکن اس سُرخی کا مَردوں کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا اس لیے مرد اس پر دوسری نظر ڈالنا پسند نہیں کرتے، اخبار کو مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے، مثلاً کسی نے فون پر نمبر لکھوایا، ڈائری نہیں مل رہی تو اخبار کا کونہ حاضر ہے یا ہوٹل وغیرہ سے روٹی لے آئے اور چھابی میں بچھانے کے لئے کپڑا نہیں مل رہا تو اخبار یہاں بھی دل وجان سے حاضر ہے سردیوں میں اسے آگ لگا کر سینکا جاسکتا ہے گرمیوں میں اسے مروڑ کر ڈنڈا بنا کر مکھیاں اڑائی جا سکتی ہیں (شادی کے شروع کے دنوں میں نئی نویلی بیویاں بھی اس اخباری ڈنڈے سے اپنے شوہروں کی پیار بھری ہلکی ہلکی ٹکور کرتی ہیں لیکن بعد میں ان کی شدت پسندی میں اضافہ ہوجاتا ہے) لیکن ماہرین کے نزدیک اخبار کا بہترین استعمال اس میں پکوڑے ڈال کر لے آنا ہوتا ہے۔ جس دن بارش ہو اس کے دوسرے دن اخبار زیادہ بِکتا ہے کیونکہ دوسرے دن اس میں کسی نہ کسی شہر کی چند خوبصورت دوشیزائیں نہاتے ہوئے ضرور دکھائی جاتی ہیں، حالانکہ لڑکے بھی بارش میں اسی دلجوئی سے نہاتے ہیں لیکن رپورٹروں کی سائنس کے مطابق لڑکیاں اچھے سے نہاتی ہیں۔ ماریا شراپوا اور ثانیہ مرزا کی ٹانگیں بھی اخبار کی بِکری میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ فلمی صفحہ خالص مردانہ سوچ کو مدنظر رکھ کر تیار کیا جاتا ہے جو اداکارہ کچھ نہ دکھانا چاہ رہی ہو وہ بھی پوری تفصیل سے دکھا دیا جاتا ہے۔ بچوں کا صفحہ صرف اس دلاسے کی وجہ سے چھاپ دیا جاتا ہے کہ شاید بچے بھی پڑھتے ہوں گے، بوڑھوں کا صفحہ نہیں شامل کیا جاتا ہے ان کے لئے الگ سے مرادنہ کمزوری کے اشتہار ڈال دیے جاتے ہیں۔ عاملین اور سنیاسی باووں کے لئے مکمل طور پر الگ سے صفحہ شامل کیا جاتا ہے جس پر وہ ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں کہ کس کے پاس کتنے جن ہیں۔ باقی اخبار ضرور خریدنا چاہیے اس سے بندہ نئی نوکریوں کے متعلق جانتا رہا ہے جو اسے کبھی نہیں ملنی ہوتیں۔
(کچھ نہ سمجهے خدا کرے کوئی)
📰
*اخبار* کاغذ کا بنا ہوتا ہے، باقی دنیا میں اسے پڑھا جاتا ہے ہمارے ہاں دیکھا جاتا ہے یا پھر پھاڑ دیا جاتا ہے۔ اخبار میں اشتہارات کے علاوہ یونہی معلومات عامہ کے لئے تھوڑی بہت خبریں بھی ڈال دی جاتی ہیں، ان خبروں میں سب سے زیادہ ’’ن نے ش کے ساتھ کھیتوں میں ع غ کردیا‘‘ والی خبریں پڑھی جاتی ہیں، اخبارات میں کالم چھپتے ہیں کالموں والا صفحہ سب سے اہم سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ پڑھنا نہیں پڑتا، وقت بچ جاتا ہے، عورت کی طرح اخبار کی بھی سب سے اہم خبر سُرخی کہلاتی ہے لیکن اس سُرخی کا مَردوں کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا اس لیے مرد اس پر دوسری نظر ڈالنا پسند نہیں کرتے، اخبار کو مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے، مثلاً کسی نے فون پر نمبر لکھوایا، ڈائری نہیں مل رہی تو اخبار کا کونہ حاضر ہے یا ہوٹل وغیرہ سے روٹی لے آئے اور چھابی میں بچھانے کے لئے کپڑا نہیں مل رہا تو اخبار یہاں بھی دل وجان سے حاضر ہے سردیوں میں اسے آگ لگا کر سینکا جاسکتا ہے گرمیوں میں اسے مروڑ کر ڈنڈا بنا کر مکھیاں اڑائی جا سکتی ہیں (شادی کے شروع کے دنوں میں نئی نویلی بیویاں بھی اس اخباری ڈنڈے سے اپنے شوہروں کی پیار بھری ہلکی ہلکی ٹکور کرتی ہیں لیکن بعد میں ان کی شدت پسندی میں اضافہ ہوجاتا ہے) لیکن ماہرین کے نزدیک اخبار کا بہترین استعمال اس میں پکوڑے ڈال کر لے آنا ہوتا ہے۔ جس دن بارش ہو اس کے دوسرے دن اخبار زیادہ بِکتا ہے کیونکہ دوسرے دن اس میں کسی نہ کسی شہر کی چند خوبصورت دوشیزائیں نہاتے ہوئے ضرور دکھائی جاتی ہیں، حالانکہ لڑکے بھی بارش میں اسی دلجوئی سے نہاتے ہیں لیکن رپورٹروں کی سائنس کے مطابق لڑکیاں اچھے سے نہاتی ہیں۔ ماریا شراپوا اور ثانیہ مرزا کی ٹانگیں بھی اخبار کی بِکری میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ فلمی صفحہ خالص مردانہ سوچ کو مدنظر رکھ کر تیار کیا جاتا ہے جو اداکارہ کچھ نہ دکھانا چاہ رہی ہو وہ بھی پوری تفصیل سے دکھا دیا جاتا ہے۔ بچوں کا صفحہ صرف اس دلاسے کی وجہ سے چھاپ دیا جاتا ہے کہ شاید بچے بھی پڑھتے ہوں گے، بوڑھوں کا صفحہ نہیں شامل کیا جاتا ہے ان کے لئے الگ سے مرادنہ کمزوری کے اشتہار ڈال دیے جاتے ہیں۔ عاملین اور سنیاسی باووں کے لئے مکمل طور پر الگ سے صفحہ شامل کیا جاتا ہے جس پر وہ ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں کہ کس کے پاس کتنے جن ہیں۔ باقی اخبار ضرور خریدنا چاہیے اس سے بندہ نئی نوکریوں کے متعلق جانتا رہا ہے جو اسے کبھی نہیں ملنی ہوتیں۔
(کچھ نہ سمجهے خدا کرے کوئی)
Comments
Post a Comment