ایک عالمِ دین کا سچا واقعہ
ایک عالمِ دین کا سچا واقعہ.
مجھے کرناٹکا مسلم متحدہ محاذ کی میٹنگ میں جانا تھا۔ایک آٹو میرے قریب آکر رک گیا میں نے کہا ابراہیم اسٹریٹ جانا ہے۔آٹو میں سوار ہو گیا۔ڈرائیور شکل و صورت سے اچھے، بھلے اور مہذب معلوم ہورہے تھے۔نام پوچھا تو کہا حافظ عقیل احمد پھر انہوں نےکہا میں عالم دین بھی ہوں۔18 سالوں سے امامت و خطبات کے بعد 6 مہینوں سے اطمینان و سکون کی سانس کے رہا ہوں اور زندگی آٹو چلا کر بسر کر رہا ہوں۔میں نے کہا آپ کا منصب
ومقام تو بہت بلند ہے۔قوم کی اصلاح کر سکتے ہیں تعلیم و تر بیت کا اچھا موقعہ ہے آپ نے اچانک روٹ تبدیل کیوں کیا؟ مولانا نے فرمایا برداشت کی ایک حد ہوتی ہے۔ہر کام کے لئے مسجد کے صدر سے رجوع ہونا ،ذمہ داران کو خوش رکھنا، ان کے پسند کے آدمی کی تعریف کرنا، اور نا پسند کی غیبت کرنا، ان کے مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں کر سکتے کسی اجتماع اور پروگرام میں جا نہیں سکتے ۔میں نے کئی مرتبہ ان کی ڈانٹ سنا ہے۔ان کی انفرادی زندگی بے عملی کا شکار ہے۔چھوٹ غیبت، دھوکا ،گالیاں، دھمکی عام سی بات ہے رشوت لیتے اور دیتے ہیں یہاں تک کہ سودی کاروبار کرتے ہوے میں نے دیکھا ہے۔امامت کی زندگی سے تنگ آگیا تھا اللہ نے حلال روزی کا موقع عنایت کیا اس میں بہت سکون ہے۔میں نے کہا ہر مسجد کے ذمہ داران ایسے نہیں ہوتے۔ متقی اور پرہیزگاروں کی بڑی تعداد ہے۔مولانا نے فرمایا جس مسجد کا امام ان کے بارے میں گواہی دے کہ ہمارے صدر سیکریٹری متقی و پرہیز گار ہیں تو ہیں ور نہ نہیں انہوں نےکہا ایک بڑی اکثریت اس سے خالی ہے۔مولانا نے فرمایا مسجد کے صدر کا انتخاب مالدار، سیاست کی بنیاد پر ہوتا ہے،حیثیت و مقام کا خیال رکھا جاتا ہے اور ڈرانے دھمکانے والوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔میں نے کہا آٹو ڈرائیور کے تجربات بتایئں تو کہا فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد ظہر تک گھومتا ہوں اللہ کا شکر ہے کہ مسجدسے ماہانہ جورقم ملتی تھی اس سے زیادہ آدھے دن کی محنت میں مل جاتی ہے۔نماز عصر کے بعد بچوں کو تعلیم دیتا ہوں۔لوگوں سے ملاقاتیں کرتا ہوں۔بیوی بچوں کے ساتھ سکون سے ہوں۔
(محمد یوسف کنی )
مجھے کرناٹکا مسلم متحدہ محاذ کی میٹنگ میں جانا تھا۔ایک آٹو میرے قریب آکر رک گیا میں نے کہا ابراہیم اسٹریٹ جانا ہے۔آٹو میں سوار ہو گیا۔ڈرائیور شکل و صورت سے اچھے، بھلے اور مہذب معلوم ہورہے تھے۔نام پوچھا تو کہا حافظ عقیل احمد پھر انہوں نےکہا میں عالم دین بھی ہوں۔18 سالوں سے امامت و خطبات کے بعد 6 مہینوں سے اطمینان و سکون کی سانس کے رہا ہوں اور زندگی آٹو چلا کر بسر کر رہا ہوں۔میں نے کہا آپ کا منصب
ومقام تو بہت بلند ہے۔قوم کی اصلاح کر سکتے ہیں تعلیم و تر بیت کا اچھا موقعہ ہے آپ نے اچانک روٹ تبدیل کیوں کیا؟ مولانا نے فرمایا برداشت کی ایک حد ہوتی ہے۔ہر کام کے لئے مسجد کے صدر سے رجوع ہونا ،ذمہ داران کو خوش رکھنا، ان کے پسند کے آدمی کی تعریف کرنا، اور نا پسند کی غیبت کرنا، ان کے مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں کر سکتے کسی اجتماع اور پروگرام میں جا نہیں سکتے ۔میں نے کئی مرتبہ ان کی ڈانٹ سنا ہے۔ان کی انفرادی زندگی بے عملی کا شکار ہے۔چھوٹ غیبت، دھوکا ،گالیاں، دھمکی عام سی بات ہے رشوت لیتے اور دیتے ہیں یہاں تک کہ سودی کاروبار کرتے ہوے میں نے دیکھا ہے۔امامت کی زندگی سے تنگ آگیا تھا اللہ نے حلال روزی کا موقع عنایت کیا اس میں بہت سکون ہے۔میں نے کہا ہر مسجد کے ذمہ داران ایسے نہیں ہوتے۔ متقی اور پرہیزگاروں کی بڑی تعداد ہے۔مولانا نے فرمایا جس مسجد کا امام ان کے بارے میں گواہی دے کہ ہمارے صدر سیکریٹری متقی و پرہیز گار ہیں تو ہیں ور نہ نہیں انہوں نےکہا ایک بڑی اکثریت اس سے خالی ہے۔مولانا نے فرمایا مسجد کے صدر کا انتخاب مالدار، سیاست کی بنیاد پر ہوتا ہے،حیثیت و مقام کا خیال رکھا جاتا ہے اور ڈرانے دھمکانے والوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔میں نے کہا آٹو ڈرائیور کے تجربات بتایئں تو کہا فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد ظہر تک گھومتا ہوں اللہ کا شکر ہے کہ مسجدسے ماہانہ جورقم ملتی تھی اس سے زیادہ آدھے دن کی محنت میں مل جاتی ہے۔نماز عصر کے بعد بچوں کو تعلیم دیتا ہوں۔لوگوں سے ملاقاتیں کرتا ہوں۔بیوی بچوں کے ساتھ سکون سے ہوں۔
(محمد یوسف کنی )
Comments
Post a Comment